Never stop dreaming!

Plan your Trip

کیا تم جانتی ہو کہ خواب پورے ہوتے ہیں؟ وہ ہنزہ کے کسی ہوٹل کی چھت پہ کھڑے اندھیری رات میں گرل پہ ہاتھوں کا قالین بچھائے تھوڑی اس پر رکھ کہ سامنے پہاڑ دیکھ رہی تھی ۔ وہ اپنی ہی کسی سوچ میں کھوئی ہوئ تھی۔ ۔ ۔ کہ اتنے میں اس کی دوست نے اسی سے سوال کیا۔ حفصہ کیا تمہیں اس نظارے سے خوف نہیں آ رہا؟ تم تو وہ لڑکی تھی جو جن بھوتوں کی بات تک نہیں کرنے دیتی تھی ۔ اور اب رات کے بارہ بجے اس خوفناک اندھیرے میں اس پہاڑ کو دیکھتی جا رہی ہو۔ اس کی دوست شاید اسے یاد کروا رہی تھی کے وہ ان پہاڑوں کے دیدار سے پہلے کتنی ڈرپوک ہوا کرتی تھی۔ ۔ ۔ نہیں۔ جس سے محبت ہو اس سے خوف کیسا؟ آج تو میں بہت خوش ہوں۔ شاید اس دنیا میں سب سے زیادہ خوش۔ میرا دل کرتا ہے کہ میں ان پہاڑوں کے اور قریب جائوں۔ انہیں اور قریب سے دیکھوں۔ کیا کبھی میں ان پہ چل بھی پائوں گی؟ اس بار سوال اسنے اپنے آپ سے کیا تھا۔ ۔ ۔
ہوں ۔ سوچوں کے جال کو جھٹک کہ اسنے اپنی دوست کا ہاتھ پکڑ کے بولا چلو اندر چلیں۔ کل سفر لمبا ہے۔ صبح جلدی نکلنا ہے۔ ۔ ۔ وہ جانتی تھی کے وہ کچھ خوابوں کے کبھی نا پورا ہونے سے خوف کھا چکی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ٹھیک دو سال بعد ۔۔۔۔ ۔ ۔ برف پہ چلتے چلتے اسے کسی کی سسکیوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ سامنے ایک عالیشان پہاڑ اسے دیکھ کہ مسکرا رہا تھا۔ اس پہاڑ کے چہرے پہ بھی ایسی ہی خوشی تھی جیسے کسی اپنے کے میلوں دور سے مسافت تہ کرکے ملنے آنے کی ہوتی ہے۔ اسے اپنے گالوں پہ آنکھوں کی سیدھ میں پانی کی قطار بہتی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ شاید رو رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں پانی نہیں آنسو تھے۔ اب وہ آنسو سامنے کھڑے پہاڑوں کا منظر دھندلا کر رہے تھے۔ اسنے آنکھوں کو مسل کہ منظر صاف کرنا چاہا کہ اسے اپنے کندھے پہ کسی کا ہاتھ رکھا محسوس ہوا۔ ۔ ۔ تمہیں درد ہے؟ پارس نے کسی اچھے لیڈر کی طرح اس سے فکرمندی سے پوچھا تھا۔ نہیں۔ ۔ نہیں تو۔ وہ پلٹ کہ بس یہی کہ پائی تھی کہ پھوٹ پھوٹ کہ رو دی۔ پارس کے چہرے پہ پریشانی دیکھ کہ اسنے رک رک کہ بولنا شروع کیا۔ نہیں مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے۔ میں تو بہت خوش ہوں۔ شاید اس دنیا میں سب سے زیادہ خوش۔ ۔ ۔ اب وہ دونوں کسی پتھر کا سہارہ لیے بیٹھ گئے تھے۔ وہ پارس کی گودھ میں کسی چھوٹے بچے کی طرح سر رکھ کہ ان سے باتیں کرنے لگی۔ پارس بھی اب اسکا سر سہلا رہی تھیں۔ جانتی ہیں پارس۔ ۔ میں نے دو سال پہلے کھلی آنکھوں سے ایک خواب دیکھا تھا۔ پہاڑوں کو قریب سے دیکھنے کا خواب۔ مجھے ان پے چلنا بھی ہے۔ اللہ نے چاہا تو وہ خواب بھی ضرور پورا ہوگا۔ آج میں اپنے خوابوں کو جی رہی ہوں۔ اور یہ صرف آپ کی وجہ سے ممکن ہوا۔ یہ آنسو صرف اور صرف خوشی کے ہیں۔ ۔ ۔ حفصہ ۔۔۔ پارس۔۔۔۔ کہیں دور سے کسی کے ہمیں بلانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ اوہ۔ ۔ وہ دونوں باتوں باتوں میں بھول چکے تھے کہ ان کے ساتھی انہیں دور دور تک نا پا کہ ان کے لیے پریشان بھی ہو سکتے تھے۔ وہ پکار انکے ساتھیوں کی ہی تھی۔ پارس جھٹ سے کھڑی ہوئیں اور مجھے بھی چلنے کو کہا۔ انہیں اپنی لیڈرشپ کی ڈیوٹی کو اچھے سے نبھانا تھا۔ ۔ ۔ اب وہ پارس کے ساتھ کھڑی مسکرا کہ اس قافلے میں شامل ہو چکی تھی جو اپنے خوابوں کو پورا کرنے جا رہا تھا۔۔۔۔

About Author

Hafsa Asad

Hafsa Asad