مگرپیرآبشار، کنراچ بلوچستان & Mugar Pir Waterfalls, Kanrach, Baluchistan
طلسم خواب زلیخا و دام
بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں
30 مارچ گرمی سے بھرپور لیکن ایک نیا چمکتا دن، کچھ نفیس لوگوں کے ہمراہ بلوچستان کا پروگرام بنا،جی ہاں وہی بلوچستان جو رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا اور بدقسمتی سے سب سے زیادہ پسماندہ صوبہ ہے ۔۔قدرتی وسائل سے مالا مال اس صوبے میں جابجا قدرت کے دلکش نظارے بھرے ہیں۔۔
بلوچستان جاکے اس کے بارے
میں جان کے معلوم ہوا، یہ کوئٹہ، گوادر، لسبیلہ اور بگٹی پہ محیط نہی ہے ۔۔ بلکہ
ان کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے اور بے شمار قدرتی وسائل کے ساتھ دل آویز جگہیں بھی اس
صوبے میں موجود ہیں ۔
دو کوچ اور تین چار
پرائیویٹ گاڑیوں کے ہمراہ چند زندہ دل دنیا کی مصروفیات سے کچھ وقت نکال کے اپنی
زندگی جینے کو چلے ۔
انتاکشری کھیلتے کھیلتے
ہم دو تین گھنٹے بعد ویندر پہنچے،چائے کا اسٹاپ ہوا، ادرگرد کھڑے ہمارے کلچر میں
رنگا رنگ اضافہ کرتے سجے سجائے ٹرک پہ نظر گئ پھرتی کے ساتھ چند تصاویر لی اور
تازہ دم ہوکے پھر نکل پڑے ۔۔ مزید دو تین گھنٹے بعد بالاخر ہم کنراچ پہنچے، کنراچ
میں ہمارا مین اسٹاپ مگرپیر آبشار تھا۔
آنکھوں کے سامنے ایک
ویران ،خاموش اور پتھروں کی بستی تھی ۔۔ اس دل آویز خاموشی میں اگر کوئی آواز
ابھرتی تھی تو وہ پانی کے جلترنگ کی تھی ۔۔ مگر پیر آبشار کی دلنیشن آواز سماعت
میں تازگی کے ساتھ ایک دل کش سماں باندھے تھی ۔۔ دور بہت دور اونچے نیچے تقریبا
مٹی کے پہاڑ، ان کے بیچوں بیچ چھپا ہوا آبشار اور مسلسل بہتا پانی ۔۔انسان پہ سجدہ
شکر واجب ہوجاتا ہے ۔
نماز عصر کا وقت ہوا،
اللہ نے اپنی بچھائ زمین پہ اپنے آگے جھکنے کا موقع دیا، ہم نے اس انمول موقع کو
چھپٹا اور سکون سے ٹھنڈے تازے پانی سے وضو کرکے اونچے نیچے گرم پتھروں پہ رب
کائنات کی کبریائی بیان کی
شام ڈھلی اور ہم سب پانی
سے نکل کے آس پاس گھومے،بلوچستان کے اس سنگلاخ علاقے میں بہتے پانی نے ماحول کو
الگ ہی رنگ دیا ہوا تھا۔۔ ویرانی اور ریت کے پہاڑ دیکھ کے کوئ سوچ بھی نہی سکتا،
نیچے پتھروں کے درمیان سے صاف شفاف پانی بہہ رہا ہے۔۔ جا بجا مچھلیاں اور
کہی کہی ڈوڈو صاحب بھی تفریح کرتے دکھائی دے رہے تھے ۔۔ اونچے نیچے ہرے، بھورے
درخت، کچھ جھاڑیاں اور بے حد شفاف پانی جس میں پڑے پتھر آپ کو بے ساختہ "
سبحان اللہ " کہنے پہ مجبور کردے ۔۔ کل ملا کے یہ ایک خوشگوار اور خوبصورت
تفریح ثابت ہوئ ۔
بظاہر ہم ایک گروپ کی
مانند نکلے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، ہر ایک نے اس جگہ اپنی الگ دنیا کھوج
لی تھی ۔کوئ پتھروں پہ گوتم بدھ بنا بیٹھا تھا تو کوئ بہتے پانی میں پاؤں ڈالے
دائیں بائیں نظریں گھما رہاتھا، کوئ تجسس بھری طبیعت کو سرشار کرنے نکل چکا تھا تو
کوئ رات ٹینٹ لگانے کو جگہ تلاش کررہا تھا ۔۔
دو چار لوگ ہاتھ میں اپنا
اپنا قیمتی کیمرا لئے بساط بھر فوٹوگرافی میں مشغول تھے انہی میں ایک صاحب آسمان
پہ جگمگاتے روشن تاروں کی تصاویر لینے اور اپنی معلومات سے ہم جیسے بیچارے لوگوں
کو متاثر کرنے کی کامیاب کوشش کررہے تھے ۔۔ بالاخر کچھ دیر بعد جب گروپ کے لوگوں
کی انرجی ختم ہونے لگی اور وہ لوگ فضاء میں چار سو بریانی کی مہک تلاش کرتے
رہے،
کھانے میں ابھی دیر تھی،
چائے کا دور شروع ہوا ۔۔ وقت گزاری کے لیئے سرسری سی گفتگو کی ابتداء ہوئ اور اس
وقت لوگوں کو معلوم ہوا، ناچیز پراسرار آسیبی کہانیوں کو لکھنے کی سزاوار ہیں تو
ان کی فرمائش میں ایک سچا واقعہ سنایا، سامعین نے بھی خوف و دہشت کے اس بہتے وقت
میں اپنا اپنا حصہ ڈالا اور سب اپنے ڈر سے لطف اندوز ہوئے
رات گئے لذید بریانی و
زردے کے بعد ہارمونیم کے ساتھ غزلوں اور گرماگرم چائے نے سفر میں چار چاند لگادئیے
۔۔ دن بھر کی تھکن اڑنچھو ہوئ اور ہم محمود و ایاز کی مانند جہاں جس کو جگہ ملی
لیٹے اور بیٹھے ۔
رات تین چار بجے یہ محفل
برخاست ہوئ ۔۔ کافی لوگ اپنے اپنے ٹینٹ میں انٹاغفیل ہوگئے ۔۔ معمولی سا سناٹا
چھایا اور نظروں نے ایک اور دل ربا منظر دیکھا، پھیلی ہوئی سیاہ رات میں، اوپر کہی
دور بہت دور ستاروں سے جگمگاتے کھلے آسمان نے گنگ کردیا۔۔ بے ساختہ دل سے آواز
ابھری ۔۔۔
" ان بےجان چیزوں
میں بنانے والے نے اس قدر خوبصورتی رکھی ہے تو تخلیق کرنے والا خود کیسا ہوگا
"
سیاہ آسمان دئیے کی روشن
لو جیسا محسوس ہورہا تھا ۔۔ نیند میں ڈوبی آنکھیں بہت جلد اللہ کا شکر ادا کرتے
بند ہوگئیں
کنراچ، مگرپیرآبشار ۔۔30،31 مارچ 2019